تحریر: ربیعہ ارشد منج
اردو ہماری قومی زبان ہے۔جو بہت میٹھی اور خوبصورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ جو شخص اچھی اور روانگی سے اردو بولتا ہے اس کی بات سنتے ہوۓ لطف آتا ہے۔ اردو زبان کو ہندوستان کی اصل زبان قرار دیا جاتا ہے۔ جس کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی۔ باقی زبانیں تو باہر سے آئی ہیں۔ ہندی زبان آریا لے کر آۓ۔فارسی مغلوں کے ساتھ آئی اور عربی زبان عربوں نے درآمد کی۔ لیکن اردو زبان نے یہیں جنم لیا اور یہیں پلی بڑھی۔ کئی صدیاں اکٹھے رہنے کے بعد جب مسلمانوں نے ہندوؤ کے تیور بدلتے ہوۓ دیکھےتو انہوں نے اپنے مذہب اپنی ثقافت اور اپنی زبان کو ترقی دینے کے لیۓ ایک الگ وطن حاصل کیا جو آج ایک عظیم ملک پاکستان کی صورت میں نعمت خداوندی کے طور پر ہمارے پاس موجود ہے۔ لیکن ہم نے یہاں جو اپنے مذہب اور ثقافت کا حال کیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ برا حال اپنی قومی زبان کا کیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک میں اردو زبان کی بجاۓ انگریزی زبان نافذ کر دی ۔ اور پچھلے تہتر سال سے یہی زبان نافذ ہے۔ ہمارے سکولوں کالجز یونیورسٹی سرکاری ونجی دفاتر ہر جگہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان انگریزی ہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں انگریزی کتب کی بھرمار ہے۔ اور ایک مضمون جسے انگریزی کے نام دے دیا جاتا ہے وہ تو لازمی ہے۔ ترقی زبان کے سیکھنے سے نہیں ہوتی بلکہ ترقی کے لیۓ علم وفنون میں ماہر ہونا ضروری ہے۔ اردو بھی تو ایک زبان ہے۔ مگر اس کے ماہرین کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ ہمارے آج کے دور میں بچے کی پیدائش سے ہی اسے انگریزی نظمیں یاد کروا دی جاتیں ہیں۔ بچہ ملک اور اپنی ہی زبان اور اس کے پچھے کی جانے والی جدوجہد سے روشناس نہیں ہوتا۔ میرا ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ ہمارے ہاں بچوں کو تو کیا بڑوں کو بھی اردوزبان کے بارے میں نظریہ دینے والے پروفیسر ڈاکٹر مسعود حسین کا علم ہی نہیں ہے۔جن کی ساری زندگی ہماری قومی زبان کے نظریے دینے پہ گزری ہے۔ کیسے ہمارا ملک ترقی کرے گا؟ جہاں اپنی ہی چیزوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان سے افادیت حاصل نہیں کی جاتی۔ ہمارے آج کے اس ترقی کرتے دور میں جس بچے کو انگریزی زبان سے محرومی ہے وہ بچہ اول درجے کا نالائق سمجھا جاتا ہے۔ اور ایسے بہت سے بچے اسے اپنی کمتری سمجھ کر زندگی میں آگے نہیں بڑھتے۔
ماضی میں مسلمانوں نے جتنی بھی ترقی کی وہ غیروں کی زبان کی محتاج نہیں تھی۔ بلکہ انہوں نے اپنی ہی زبان میں علم وفنون کے ایسے جواہر تراشے کہ انہیں ہر جگہ پذیرائی ہوئی ۔اور دوسروں کو ان کی زبان کا محتاج نہیں ہونا پڑا۔ چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کی زبان کو سیکھا اور پھر ان کی کتابوں کی زبانوں کو سیکھا۔ پھر ان کی کتابوں کے تراجم اپنی زبان میں کیے۔ یوں وہ فریب خوردہ جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے باہر نکلے اور انہیں جینے کا سلیقہ اور قرینہ آیا۔ غیروں کی زبان میں علم تو حاصل کیا جا سکتا ہے یا ان کی زبان سے اپنی زبان میں تراجم حاصل کیے جا سکتے ہیں مگر تحقیق و تخلیق کے دروازے اپنی ہی زبان میں کھلتے ہیں اسی میں اچھا ادب تخلیق ہوتاہے کیونکہ ادب انسانوں کی تاریخ ہوتی ہے۔ لہذا اس میں ایک مخصوص خطے کے انسانوں کی تہذیب وثقافت بھی در آتی ہے۔
آگر سوجھ بوجھ کے لحاظ سے دیکھا جاۓ تو اردو پاکستان کی قومی اور رابطے کی زبان ہے۔ جس سے پاکستان کا ایک ان پڑھ آدمی بھی باآسانی بول اور سمجھ سکتا ہے۔ اس کا اندازہ وادی کیلاش کے باشندوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر اردو زبان کو زندہ رکھنا ہے تو پھر اسے لازمی طور پر سائنس ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کی زبان بنانا ہو گا کیونکہ دور حاضر میں صرف وہی زبان زندہ رہ سکے گی جو جدید علوم کی ترجمان ہو گی اگر ہم نے اردو کے نفاذ کی طرف توجہ نہ دی تو پھر اپنا بڑا تہذیبی وثقافتی ادبی اور مذہبی سرمایہ جو اردو زبان میں تخلیق ہو چکا ہے اس کی اصل سے دور چلے جائیں گے
سمجھیں اور غور کریں۔
