Nadeem Butt

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔۔۔ ✒️ انجینئر ندیم بٹ

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔۔۔
✒️ انجینئر ندیم بٹ

⚡الحمدللہ💞میں زندگی کی 52 بہاریں دیکھ چکا ہوں، تلخ و شیریں حالات و واقعات زندگی کا حصہ رہے ،مجھے دنیا میں آنے پر پہلا دکھ “سقوط ڈھاکہ” کی شکل میں ملا ،جو میری پیدائش سے چند ماہ قبل رونما ہو چکا تھا۔۔ شیر خواری سے خجل خواری تک کی کہانی جب آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے تو حیران ہو کر خود سے سوال کرتا ہوں کہ ہم نے بحیثیت قوم کیا کھویا کیا پایا ۔۔۔؟؟ میں خود کو مطمئن نہیں کر پاتا ۔۔۔!!
ہمارا بچپن بلیک اینڈ وائٹ دور تھا ۔۔۔سادگی اور سعادت مندی سے بھرپور ۔۔۔مٹی گاڑھے اور اینٹوں سے بنے گھر اور کچی چھتیں ۔۔جہاں گرمی اور سردی کا احساس قدرے کم ہوتا تھا، ہر دوسرے گھر کے آنگن میں ایک درخت ہوتا تھا جو اکسیجن ،ایندھن ،سایہ اور پھل دیتا تھا ، مجھے یاد ہے ہمارے صحن میں بھی ایک پھلدار جامن کا گھنا درخت ،کریلے ،بھنڈی توری ،ٹماٹر ،سبزمرچ کے پودے اور کالی توڑی کی لمبی چوڑی بیل ہوتی تھی ، جنہیں دیسی کھاد دی جاتی تھی،جس سے ہمارے علاوہ اہل محلہ بھی مستفید ہوتے تھے ،یقین کریں میں جامن کے پھل اور ان سبزیوں کا ذائقہ آج بھی محسوس کرتا ہوں ۔۔۔ کچے گھر سے میری عقیدت اور محبت “پکی” تھی جو آج بھی میری یادوں کا حصہ ہے اور رہے گی،
یہ وہ دور تھا جب راشن ڈپو ہؤا کرتے تھے اور ہر گھرانے کا بحساب افراد ایک راشن کارڈ بنتا تھا ۔۔۔اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت ہماری فی ایکڑ پیداوار کم تھی ۔۔۔چونکہ کھاد وغیرہ کا استعمال کم تھآ اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بلڈ پریشر ،شوگر اور اس نوعیت کی کئی بیماریوں کا نام و نشان تک نہ تھا یا نہ ہونے کے برابر تھیں۔۔پھر کھاد ،زرعی ادویات اور جدید بیج کی شکل میں زراعت کی دنیا میں انقلاب آیا ،فی ایکڑ پیداوار بڑھی اور میرے دیس میں بیماری بھی بڑھ گئی ،
اس کے ساتھ ساتھ ہم بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین اور رنگینیوں کے دور میں داخل ہوئے تو مٹی کی خوشبو اور درختوں کے سائے سے ہمیں گھن آنے لگی ہم سیمنٹ کی محبت میں گرفتار ہونے لگے ہم نے ہاتھ والے پنکھے،مٹی و پیتل کے برتن ،پانی والے مٹکے کو خیر باد کہا اور ماڈرن ازم کی طرف بڑھنے لگے ،برقی پنکھے،پلاسٹک کے کولر ،سٹیل کے برتن ہمارے گھروں کی زینت بننے لگے،تانگے کی جگہ الودگی پھیلاتے رکشے اور ویگنیں آگئیں،دستی کام چھوڑ کر ہم نے مشینوں کا استعمال شروع کر دیا،حتی کہ ہم نے درخت سے جان چھڑائی اور اے سی لگوا لیئے،پانی والے نلکے کی جگہ برقی موٹر آگئی اور ہم بھولے بادشاہ سکون میں آگئے ،خواتین نے واشنگ مشینیں طلب کر لیں پھر ہم نے اپنے کچے گھروں کو مسمار کیا اور صاف ستھرے پکے گھر بنا لیے اور مٹی کی اس خوشبو سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئے جو گرمیوں کی ہرشام میرے کچے گھر کے آنگن سے اٹھتی تھی۔۔۔۔ صحت مند سواری “سائیکل” کو بھی ہم نے موٹر لگا کر موٹر سائیکل بنا دیا ،
مجھے یاد ہے کہ اوائل میں بجلی ہماری ضرورت تھی جس سے عموماً شام کو بلب روشن کرنا ہی غنیمت سمجھا جاتا تھا یا کبھی شوق شوق میں پنکھا چلا لیا ۔۔۔ پھر وقت کروٹ بدلتا گیا اور بجلی ہماری مجبوری ہوگئی مگر افسوس کہ ہم آج تک بھی اس میں خود کفیل نہ ہو پائے،
بحیثیت قوم ہم نے سہل پسندی کو منتخب کر لیا ترقی سے فائدہ ضرور اٹھایا لیکن اس میں حصہ دار نہ بنے،ہم نے اپنی روایات کو چھوڑ کر رسوائی کے علاؤہ کچھ نہ پایا ،ماضی ہم سنبھال نہ سکے اور مستقبل کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو سکے، ہم سوئی سے لیکر سواری تک غیروں کے مرہون منت ہو گئے ، آج ہماری حالت اس کوے کی طرح ہے جو ہنس کی چال چلنے کے چکر میں اپنی چال بھی بھول بیٹھا ۔۔۔
(اس تحریر میں سابقہ زندگی کے ایک پہلو کا احاطہ کر سکا ہوں دیگر حوالے سے ان شاءاللہ پھر کسی دن لکھوں گا)

اپنا تبصرہ بھیجیں